مہندی کو ہمارے طرز معاشرت میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ خوشی کے مواقع پر اس کا استعمال اکثر کیا جاتا ہے جبکہ عیدین پر خواتین اس کا بطور خصوصی اہتمام کرتی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں تو اسے ایک ایسی غلط رسم کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے جس سے شادی کی تکمیل بعض حلقوں میں ہو ہی نہیں پاتی اگرچہ اس سے بے شمار برائیاں ہمارے غیراسلامی انداز معاشرت کی وجہ سے جنم لے رہی ہیں۔
مہندی کو اگر ایک رسم محض کے علاوہ طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ صدیوں سے اس کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں ضرور ہوتا رہا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت کے بارے میں یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ قدیم مصری عورتیں اسے چونے کے ساتھ ملا کر استعمال کرتی تھیں۔ فراعین مصر اس کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے چنانچہ وہ اسے ہاتھوں پیروں پر لگاتے اس سے کپڑوں کو رنگواتے۔ دیگر اجزائے لطیفہ کے ساتھ خوشبو کیلئے سلگاتے اور پھر مرنے کے بعد اس کے پتے اپنے مقبروں میں رکھواتے تھے۔ قدیم ہندومذہب اور بدھ عقائد میں بھی اس کی بہت اہمیت رہی ہے۔ چنانچہ ہندو امراءاپنی دلہنوں کیلئے ایسے سونے کے تاج بنواتے جن پر انتہائی سلیقے کے ساتھ مہندی کے پتے ایک حاشیے کی صورت میں لگائے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں کے ہاں بھی مہندی اشیاءمقدسہ میں شامل تھی۔ رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں جو کلمات صادر ہوئے وہ کچھ یوں تھے:۔ ”حنا کا خضاب لگائو کیونکہ یہ جوانی کو بڑھاتی ہے‘ حُسن میں اضافہ کرتی ہے اور باہ کو بڑھاتی ہے۔“
اس فرمان کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کچھ اس طرح کی کہ ”حضرت جہذمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرکے تشریف لارہے تھے اس لیے اپنے سر کو جھاڑ رہے تھے اور آپ کے سر مبارک پر مہندی کا رنگ نظر آرہا تھا۔“ اس کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی میں نہ تو ایسا زخم ہوا اور نہ ہی کانٹا چبھا جس پر مہندی نہ لگائی گئی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور پھر محدثین عظام بھی اس کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حنا آگ سے جلے ہوئے کا بہترین علاج ہے۔ اس کا لیپ گرم پھوڑوں اور سوزشوں کو کم کرتا ہے اگر اسے گلاب کے تیل میں ملا کر اور موم شامل کرکے پہلو اور کمردرد کیلئے مقامی طور پر استعمال کیا جائے تو درد جاتا رہتا ہے۔
عبداللطیف بغدادی کہتے ہیں کہ اس کا رنگ اور خوشبو محرک اعصاب ہے۔ اس کے لگانے سے اعصاب کو تحریک ہوتی ہے اور ناخنوں کا پھٹنا ٹھیک ہوجاتا ہے۔
اطبائے قدیم کے مشاہدات
شروع ہی سے اطبائے قدیم کے ہاں مہندی کا استعمال چلا آرہا ہے چنانچہ جالینوس نے مہندی کے پیروں پر لیپ سے مریض کی آنکھیں بچانے کا نسخہ بیان کیا ہے۔ ابن زہر نے جلے ہوئے زخموں اور ٹیڑھے ناخنوں کا علاج مہندی سے کیا۔ حکیم اجمل نے کثرت حیض کی اس مریضہ کو جس کا خون مہینہ بھر جاری رہتا تھا مہندی اور پکھان بید پیس کر اس کی ہتھیلیوں پر ضماد لگایا تو تھوڑے ہی عرصہ میں خون بند ہوگیا۔ اس کے علاوہ حکیم کبیرالدین نے مہندی کو مصفی خون قرار دیا ہے اورپھر ابتدائی جذام میں مفید پایا ہے۔
جدید تحقیقات
جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مہندی کے پتوں میں 12 سے 15 فیصد رنگ پایا جاتا ہے۔ اس کے پتے دافع تعفن وبدبو ہیں۔ اگر ان پتوں کو یا پھولوں کو تکیے میں بھر کر بے خوابی کے مریض کے سر کے نیچے رکھا جائے تو نیند کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیند گہری اور پرسکون ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک گوند پائی جاتی ہے جو ایتھر اور الکحل میں حل پذیر ہے۔ اس کے بیج بھی پتوں کی مانند دافع تعفن ہیں۔ ایسا درد جو حرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہو وہ مہندی کے پھول سونگھنے سے جاتا رہتا ہے۔ اس کے پتوں کا خیساندہ صبح نہارمنہ شکر ملا کر پینا یرقان میں مفید ہے اور تلی کے بڑھنے کو روکتا ہے۔ پیروں میں درد کی شکایت اکثر مہندی لگانے سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ مہندی قوت باہ میں اضافہ کرتی ہے۔ اعصاب کو تحریک دیتی اور زخموں کو خشک کرتی ہے۔ پیروں پر لگانے سے جلد نرم ہوتی اور اگر ناخن پر چوٹ لگنے کے بعد وہاں پر سیاہ خون جم جائے اور ناخن سیاہ ہوجائے تو اس کے لگانے سے ناخن صاف‘ چمکدار اور خوشنما ہوجاتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 385
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں